Pages

Friday, 4 December 2015

پہلی گستاخی

 کبھی ھم بہت معصوم ھوا کرتے تھے۔ بڑی ہی معصومانہ سوچ ھوا کرتی تھی۔ انٹرنیٹ کا بڑا چسکا ھوا کرتا تھا۔ یہی کوئی چار پانچ بلاگ ھماری دنیا کا حصہ تھے جنھیں پڑھ کر ھم ٹھنڈی آہیں بھرا کرتے تھے اور سوچا کرتے تھے کہ نا جانے یہ بلاگر کس دنیا کے باسی ہوا کرتے ھیں ۔ نا جانے کتنے cool ہوا کرتے ہیں۔ ھماری ٹھنڈی آہوں سے فیض یاب ہونے کے لیے لوڑ شیڈ نگ کے زمانے میں آس پڑوس کے لوگ بھی جمع ھو جایا کرتے تھے ۔ کچھ وقت بیتا، ھم خود بھی بلاگر بن گئے۔ بلاگر بن کے معلوم ہوا کہ بھیا دور کے ڈھول سہانے۔

جب بلاگر بنے تو پتہ لگا کہ ہم تو خادمِ اعلیٰ سے بھی دو چار درجے اوپر ہیں ، یوں کہ لیجیے خادمِ اعلیٰ ترین ہیں۔ کہیں بھی چلے جاؤ تفریح تو دور ، ہم بیچارے اسی غم میں مبتلا رہتے ھیں کہ فلاں زاویے سے تصویر بنا لیں ، فلاں منظر قید کر لیں۔ آخر ھمارے پیارے قارین کی امیدیں ھم ہی سے تو وابستہ ھیں۔ 

آپ کو تو پتہ ہی ہو گا کہ پچھلے ہفتے ھم ایک تقریب میں مدعو تھے۔ تفصیلات تو آپ کو پتہ ہی ھیں۔ اصل میں یہتقریب ایک سینیما " Luxus Grand Cinema" کے آغازِ ںو کی خوشی میں منقعد کی گٰٰئ تھی۔ بھئی کیا دیکھتےھیں کہ رنگ و بو کا ایک طوفان ا مڑا چلا آیا ھے۔ زیرِ لب ٰآل تو جلال تو کا ورد کرتے کراتے ، مختلف مراحل سے ھوتے ھوئے ، ملتے ملاتے ، سیلفیاں بناتے، ھنستے مسکراتے ٰآخر کارسینیما ھال پہنچ ھی گئے۔ 

اب ذرا فلم کا ذکرِ مبارک بھی کرتے چلیں۔ اس فلم میں مس دیپیکا پاڈیکون دخترِ نیک اخترمیرا مطلب ھے کہ ہیرؤن اور صاحب زادہ رنبیر کپور ہیروکے کردار میں جلوہ گر ھیں جبکہ امتیاز علی نے ہدایت کاری کے فرائض سر انجام دئیے ہیں۔

ہمسایہ ملک کے ہدایت کاربھا ئی  امتیاز علی نا جانے کیوں اس مغا لطے میں مبتلا ہیں کہ وہ روحانیت کے ایک اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔ بھئی صوفی گھی میں بنے پکوان کھا لینے سے کوئی صوفی بن جاتا ھے؟؟؟ اگر ایسا ھوا کرتا تو آج پاکستان کے ھر چراہے پر صوفیا کرام کا میلا لگا پایا جاتا۔ 

فلم کے آغاز میں بہن دیپیکا پاڈیکون ایک بے ہنگم سے انسان کی منتیں کرتی دکھائی دیتیں ہیں اور ایسا گمان ھوتا ہے کہ ھم اچانک پچھلی صدی میں جا پہنچے ہیں۔ ارے بی بی اگر ایک سنگدل اور ہرجائی فون نہیں دیتا تو کسی اور سے مانگ لو نا۔ جیبوں میں موبائل لیے درجنوں افراد آخر کس مرض کی دوا ہیں؟ 
ابنِ مریم ھوا کرے کوئی      مرے درد کی دوا کرے کوئی 

قصہِ مختصرہیرو صاحب حسبِ استطا عت ہیروانہ انٹری مارتے ہیں اور چند اول فول جملوں کے تبادلے کے بعد ہیروئن بی بی کو فون پیش کرتے ہیں ۔ بس اُسی پل نیک بی بی ہیرو صاحب کے حسن و جمال سے مرعوب ھو جاتی ھے اور ٹھان لیتی ھے         " تمہی ھو محبوب میرے       میں کیوں نا تمہے پیار کروں"   

دونوں میں طے یہ پاتا ھے کہ ہم ملکر ڈنتر پیلیں گے اور دھوم مچائیں گے۔ الغرض دونوں کار سیکا ئی کی گلیوں کی دھول چھانتے پھرتے ھیں۔ Cool بننے کے واسطے خوب ھی اٹکیلیاں کرتےپھرتے ھیں۔ پھر ہیروئن بی بی اپنے راستے چلے جاتی ھے، گویا جان نا پہچان میں تیرا مہمان۔ 

لو جی اب یہ راز فاش ھوتا ھے کہ ہیروئن بی بی کا دل تو  ہیرو صاحب کے سامان میں "مس پلیس" ھو گیا ھے۔ مگر بھلا ھو دفتری کاموں کا جو دو تین سال  ہیروئن بی بی کو الجھائے رکھتے ھیں۔ نہایت غور و خوض کے بعد بھی ایک بات سمجھ سے بالا تر ھے، شائد کچھ سال ایمازون کے جنگلوں میں چِلے کاٹیں تو سمجھ آ ہی جائے۔ آخر اس چنچل شوخ حسینہ (جسے دیکھ کر اچھے اچھوں کو آ جاتا ھے پسینا ) نے کارپوریٹ ورلڈ میں یہ مقام کونسے "امب (Mango) " دے کر حاصل کیا ھے۔ خیرہیروئن بی بی جا نے اور صوفی صاحب میرا مطلب ھے " امتیاز علی  صاحب" جانیں۔ 

لو جی یہا ں سے ایک نیا سیا پہ شروع ہوتا ہے۔  ہیروئن بی بی کو پتہ لگتا ھے کہ جس ھیرو کے لیے وہ پچھلے کئ سالوں سے جوگ لئیے ہوئے تھی ، وہ تو گد ھے کے سر سے سینگھ کی طرح غائب ھے۔ بیچاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چچ چچ چچ
 وہ ہیرو کے قول و فعل کا تضاد دیکھ کر غم و غصے اور صدمے کا شکار ھو جاتی ھے۔ عین ممکن تھا کہ سکتہ ھی طاری ھو جا تا ، مگر ھا ل میں موجود نرم دل لوگوں کی دعائیں رنگ لاتی ہیں اور ہیروئن بی بی محفوظ رہتی ہیں۔ میں نے ان گناہ گارآنکھوں سے ھا ل میں موجود کئی نفوس کو پھپک پھپک کے روتے اور انتہائی عجز و انکسار سے ہیروئن بی بی کی سلامتی کے لئے دعائیں کرتے دیکھا ھے۔

ہیروئن بی بی آؤ دیکھتی ھے نا تاؤ اور ہیرو صاحب کو سمجھاتی ھے کہ میاں کچھ ھوش کے ناخن لو، عوام کو تمہارا بانکا پن بھاتا ھے، بونگا پن نہیں۔ بات ہیرو صاحب کی سمجھ میں آ جاتی ھے۔ اجی ایک بات تو طے ھے ، جو بات روحانی ماں ( Girl friend) سمجھا سکتی ھے وہ حقیقی ماں کے بس کی بھی بات نہیں۔ 
غیرت جاگتے ھی ہیرو صاحب اپنے ارد گرد موجود ساری مخلوقات (سمیت عزت ماب ہیروئن بی بی)   کے خوب ھی لتے لے ڈالتا ھے۔ 

 ہیرو صاحب پر آشکار ھوتا ھے کہ وہ تو اصل میں غلط دنیا میں دھکے کھا تا پھررہا ھے ، در حقیقت تو وہ ایک بانکا چھین چھبیلا ھے ۔ اسے تو کہا نی نفیس بننا تھا۔ بیچارے کو اتنی عقل نہیں ہوتی، کہ یہ کام نوکری کے ساتھ بھی ھو سکتا تھا۔ ہندوستان کے آئین کے تناظرمیں ایسا عین ممکن ھے۔ 

آخر کار دو چار پاپڑ بیل کے ہیرو صاحب اپنے اماں ابا کو بھی اپنے عزائم کا حصہ بنا لیتا ھے۔ الغرض اس کے سارے دلدر دور ھو جاتے ہیں۔  ہیروئن بی بی بھی مل جاتی ہیں اور راوی چین ہی چین لکھتا ھے۔ بھئی بزرگوں کہ گئے ہیں " اگر آخر میں بھی ہیروئن نہیں ملنی تو فٹے منہ ایسی فلم کا"۔

کچھ صاحبِ نظر کو اس فلم میں ایسی صفات اور قا بلِ غور پہلو بھی دیکھائی دیے ہیں کہ خود امتیاز کو بھی نہیں پتہ ھو گا کہ وہ سب پہلو فلم مے شامل ہیں۔

ہماری ناقص رائے میں فلم کا اصل مدعا یہ ھے کہ بچہ اگر باندر (بندر :Monkey) بننے کی ضد کرے تو ماں باپ کو اس کے ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کرنی چائیے۔ آخر باندر بننے کے لئیے بھی کم ٹیلنٹ کی ضرورت نہیں ھوتی۔ چھلانگیں مار مار کے وکھیوں کے کڑاکے نکل جاتے ہیں۔

 ہم عرض کر چکے کہ یہ ہماری ناقص رائے ھے۔ اگر کوئی متفق نہیں تو نا صحیح۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ پھر بھی کسی کو کوئی مسئلہ ھے تو آ جاۓ میدان میں۔ ہم تونہیں ڈرتے اپنے باپ سے ۔ بس ڈرتے ہیں ان کے جوتے کے ناپ سے ۔ جہاں پڑتا ھے درجہ حرارت کئی گناہ بڑھ جاتا ھے۔ ابھی بھی کسی کو اختلاف ھے تو ، جاتے جاتے ایک شعر عرض کرتے چلیں ۔
لڑائی لڑائی معاف کرو
پاکستان کو صاف کرو





  


     

2 comments:

  1. hhahahahahhah such a nice and delicious post u really made me laugh yaar jitni ye film bongi thi aap ki post nay utni hi ziyada mazaydaar bana di hai well done yaar

    ReplyDelete
    Replies
    1. Awww Thank you sweet heart....... You made my day .... Aik comment and sari mehnat wasool.... Muaaah ...Keep reading and commenting.

      Delete