Pages

Tuesday, 7 February 2017

جی لے ہر پل! ایک پیغام یا وبالِ جان


آج کل ٹی وی پر عاطف اسلم نوجوانوں کو چیخ چیخ کر خواب جی لینے کا مشورہ دیتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک جیسے دکھنے والے ساس بہو اور شادی بیاہ جیسے انتہائی سنجیدہ موضویات پر بنے ڈراموں کہ بیچ جب عاطف بھائی نے انٹری ماری تو شروع میں لگا کہ بھائی کسی سپرہیرو کی طرح ہمیں ریسکیو کرنے آیا ہے۔ بڑی امید سے ہم نے ویڈیو دیکھنی شروع کی۔ ابھی ایک منٹ ہی گزرا ہو گا کہ ہمارا پہلا ری ایکشن سامنے آیا ۔۔۔۔ ہم بری طرح ایموشنل ہو چکے تھے۔ عین ممکن تھا کہ منہ سے کوئی نازیبا الفاظ بھی پھسل پھوسل جاتے۔ وجہ ؟ جی جی بتا رہے ہیں ۔۔۔ چھری تلے سا(سانس) تو لیا کریں۔



ہم پوچھتے ہیں آخر ہمارا قصورکیا ہے ؟ آخر کیوں ؟ کیوں بھئی کیوں ؟ کیا مختلف چینلز پر نشر ہونے والے معیاری اور ادبی ڈرامے ہمیں ٹارچر کرنے کے لیے کم پڑ گئے تھے جو عاطف کی خدمات بھی حاصل کر لی گیئں۔۔۔ بلا شبہ عاطف ایک منفرد آواز کا مالک ہے اور اس کے گائے ہوئے گانے نا صرف ملک میں بلکہ سرحد پار بھی بے حد مقبول ہیں ۔ مگر انفرادیت جب ایک حد کے پار چلی جائے تو ہم جیسے عام لوگوں کے لیے اسے ہضم کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور ہوا بھی یہی کہ یہ نغمہ " جی لےہرپل" ایک دردِ سر بن کہ رہ گیا ہے اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ہر تھوڑی دیر بعد کسی نا کسی چینل پر نشر ہونے لگتا ہے۔

  چلو صوتی آلودگی تو میوٹ کا بٹن دبا کر کنٹرول کی جا سکتی ہے مگر جو پیغام پیپسی کی یہ کیمپین دینا چاہ رہی ہے اس پر افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا ۔ بے حد معذرت کے ساتھ ہم ایک معصومانہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ پائی کون لوگ ہو تسی تے آخر چاندے کی او؟؟؟

ویڈیو میں کچھ مادر پدر آزاد نوجوان دیکھائے گئے ہیں جن کا مقصدِ حیات صرف اور صرف عاطف اسلم کے کانسرٹ میں پہنچنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ ہر "پّٹھا" ( اؔلٹا ) کام کرتے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ کبھی آدھی رات کو سڑکوں پر کدکڑے لگا رہے ہوتے ہیں اورکبھی ٹرین کے چکر میں خَجل ہوتے پھرتے ہیں ۔عاطف اسلم محلے کی پھپھی کی طرح  چیخ چیخ کر انھیں اور شے دے رہا ہے خواب جی لے خواب جی لے

 بندہ پوچھے بھائی آدھی رات کو سڑکوں پر لور لور پھر کر کونسے خواب جی ہو ؟ کونسی ملک و قوم کی خدمت ہو رہی ہے؟ ہمیں تو سمجھ نا آوے ہے۔ 

مختلف طرح کی ناخلفیاں کرتے کراتے یہ نوجوان عاطف اسلم کے کانسرٹ میں جا پہنچتے ہیں گویا عاطف کی ساری محنت اسی واسطے تھی۔ بلاشبہ گلا پھاڑنے کے لیے بھی خاصی محنت درکار ہے۔ 

بھائیو اور بہنو! سب پیچھے پیچھے ہو جاؤ اب ہم سیریس ہو گئے ہیں۔ ہماری ناقص رائے میں پیپسی کی اِس کیمپین کے پیچھے بے حد فضول سوچ کار فرما ہے۔ بحثیتِ قوم ہمیں لنڈے کے مال کی اس قدر عادت ہو چکی ہے کہ ہم یورپ کی مسترد زدہ سوچ کو اپنانے سے بھی باز نہیں رہتے خواہ وہ کتنی ہی بوسیدہ اور ناقابلِ برداشت کیوں نا ہو۔

یہی پیغام اگر محمد ںوید جیسے قومی ہیرو کو سامنے لاکر دیا جاتا تو کیا ہی بات ہوتی۔ آپ یقیناً محمد نوید کو نہیں جانتے ہوں گے۔ محمد نوید ایک ایسا ہیرو ہے جس نے صحیح معنیٰ میں کسی سے ڈرے بنا اور کل کی فکر کئے بنا پولیو جیسی بیماری کے ہوتے ہوئے بھی نا صرف باڈی بلڈنگ جیسا کھیل اپنایا بلکہ ملک کے لئے ڈھیروں میڈلزبھی جیتے ۔ اس کارنامے کو انجام دینے کے لئے اسے کسی کی کوئی مدد حاصل نہیں رہی اور وہ صحیح معنیٰ میں ڈٹا رہا حتکہ کامیاب ہو گیا ۔ یہ ہوتا خواب جینا ۔۔۔۔


آخر میں پیپسی کی مارکٹنگ ٹیم سے انتہائی ادب سے درخواست ہے کہ " بھلے اقبال کے ان شاہینوں نے فیشن کے واسطے اپنے بال و پَر کٹوا لیے ہیں پر آپ تو سیانے بیانے ہو ، آپ ہی کوئی چَج (تّک) کی صلاح دے دیا کرو۔" #اچھاسوری 

3 comments:

  1. Very well written. I think any sensible person can understand the message behind your satire. Bohat khoob my sister.

    ReplyDelete
  2. Seriously koi sharam hoti hai koi haya hoti hai lol too good minsa :-D

    ReplyDelete
  3. Awesome ... loved it through out specially "phisal phusal" ;)

    ReplyDelete