Tuesday 10 May 2016

ماہِ میر..... قمرِنو


پا کستا نی فلم انڈ سٹری کی کہا نی کسی فلم کی کہا نی سے کم دلچسپ نہیں ۔ عروج سے زوال تک کا ایک
 طویل سفر طے کرنے والی یہ انڈ سٹری اب پھر سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکی ہے۔" گجرازم" آخر کار قصہ پارینہ ہوا۔  پہلے کمرشل فلموں نے اپنا لوہا منوایا اور اب "ماہِ میر" جیسی آرٹ فلم کا اضافہ 
اسکی تکمیل و ترقی کی جانب  ایک اور مثبت قدم ہے۔

"ماہِ میر" انجم شہزاد کی ہدایتکاری میں بنی اور سرمد صہبا ئی کی قلم سے نکلی ایک منفرد تحریر ہے۔ اردو زبان کا انتہائی خوبصورت اور موزوں استعمال فلم "ماہِ میر" کی انفرادیت ہے جو کہ اس زبان کے قدر دانوں کے لیے بے حد خوش آئین ہے۔ بلآخر کسی فلم میں قومی زبان کو وہ مقام حاصل ہوا ہے جسکی وہ حقدار ہے۔

اب بات کرتے ہیں فلم کی کہانی کی۔ "ماہِ میر" کی کہانی تین کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ جمال موجودہ دور کا شاعر اور کالم نگار ، اٹھارویں صدی کے مشہور شاعرمیر تقی میر ، اورموجودہ دور کے قوائد و 
ضوابط سے آشنا ادیب ڈاکٹر کلیم ۔

جمال روایت و مصلحت پسندی سے کوسوں دور ایک صاف گو انسان ہے اور پھر اِسی صاف گوئی اور خوشامد سے اجتناب کی وجہ سے نا نوکری رہتی ہے نا مقام۔  احساسِ بے بسی اس کے اندر کی گھٹن اور غم و غصے کواس حد تک بڑھا دیتے ہیں کہ اس پرایک اضطراب سا طاری ہو جاتا ہے۔ اِسی اندھیرے دور میں ایک لڑکی (ایمان علی) چاند کی طرح ظاہر ہوتی ہے،جسے دیکھ کر سراہا تو جا سکتا ہے لیکن پایا نہیں جا سکتا۔ پانے کی تو نوبت ہی نہیں آ پاتی، اپنی وحشتوں اور الجھنوں کے ہجوم میں گھرے جمال 
کو وقت یہ موقع ہی نہیں دیتا کہ وہ اپنی محبت کو پانے کی کوشش ہی کر پائے۔


ڈاکٹر کلیم کی دی ہوئی کتاب جمال کو میر سے جوڑتی ہے۔ جانے انجانے میں جمال خود کو میر سے ملا لیتا ہے۔ یہاں میر کی زندگی کا ایک پہلو دکھایا گیا ہے۔ میر اورجمال کی زندگی میں دو چیزیں مشترک ہیں، ایک ناکام محبت اور حاکمِ وقت کی جے جے کار سے معذوری۔ دونوں ہی اپنی مرضی کے مالک اوراپنے من کے بادشاہ ہیں۔ 


تیسرا کردار ڈاکٹر کلیم کبھی جمال جیسا ہی ہوا کرتا تھا مگر وقت نے اس کی انفرادیت، جرات اور سچائی چھین لی ہے، وہ ایک مدت سے زمانے کی روایتوں کے آگے سرِتسلیم خم کر چکا ہے۔ زمانے کے رنگ میں رنگا ڈاکٹر کلیم ایک کامیاب شاعر اور ادیب تو بن جاتا ہے مگر روح کو کچل ڈالنے اور اپنے خیالات کا گلہ گھونٹنے کی اذیت اسے بھی لاحق ہے اور ایک دن یہی اذیت ہی اسکی موت کی وجہ بنتی ھے۔ ایک عدد ناکام محبت ڈاکٹر کلیم کی زندگی پر بھی چھائی ہوتی ہے۔ شائد محبت کا درد ہی شاعر کے قلم کی طاقت ہوتا ہے۔ فلم کا ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ خودی کو ختم کر کے بظاہر تو ہم سب کچھ پا ہی لیں پر ضروری نہیں کہ وہ سب ہمیں وہ خوشی اور سکونِ قلب بھی عطا کرے جس کے ہم متلاشی تھے۔

اب نظر ڈالتے ہیں اداکاری پر۔بحثیت جمال درد، بے بسی، بے چینی جیسے احسا سات سے سجی فہد 
مصطفیٰ کی اداکاری قابلِ تحسین ہے۔ اگرچہ بطورمیربعض مقامات پرکچھ خلش سی محسوس ہوئی۔

ایمان علی پہلے بھی کچھ ملتے جلتے کردار بخوبی نبھا چکی ہیں ، ادا ، خوبصورتی اور رقص میں ایمان 
کا کوئی ثانی نہیں ۔ اداکاری تو ماہِ میر میں بھی بہت خوب کی ہے مگر رقص میں وہ نزاکت و نفاست منقود ہے جو ایمان کا خاصہ ہے۔ مزید یہ کہ گیتوں میں بھی متعدد مقامات پر ایمان نے گیت کے بول ٹھیک سے ادا نہیں کیے ۔ اگر رقص ، ادائیگی اور ایمان  کے ملبوسات پرتھوڑی اورتوجہ دی جاتی تو فلم اور نکھر کے سامنے آتی۔ قیمتی اور دیدہ زیب ملبوسات نا صرف ایمان کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے بلکہ دیکھنے والوں پر بھی مزید اچھا تاثر مرتب کرتے۔ 


اب زکر کرتے چلیں منظر صہبائی صاحب کا۔ یہ کہنا بجا ہے کہ منظر صہبا ئی کی اداکاری نے فلم کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ادائیگی ، ٹھہراؤ ، اور تاثرات پر مکمل گرفت گویا کردار میں جان ڈال دی گئی ہو۔


صنم کی اداکاری اگرچہ اداکاری ہی لگی۔ ان کے کلام سے لے کر شعر کہنے کا اندازتک غیر موزوں تھا۔

فی زمانہ اس قسم کی فلم بنانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ بلا شبہ انجم شہزاد اورسرمد صہبا ئی نے بھرپور انصاف کرنے کی کوشش کی ہے اور کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں ۔ "ماہِ میر" کی ایک اور خاصیت ہے اس کی موسیقی۔ سریلی آوازوں میں گائے گئے خوبصورت بولوں سے سجے نغمے یقیناًً آپ کو متاثر کریں گے۔

اگر آپ اردو ادب سے شغف رکھتے ہیں یا سنجیدہ اور منفرد کام میں دلچسپی رکھتے ہیں تو "ماہِ میر" آپ کے لیے ہے۔ بولی وڈ یا دھوم دھڑکے والی فلمیں پسند کرنے والوں کے لیے "ماہِ میر" قطعی نا موزوں ہے۔ ایک جملے میں کہا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ماہِ میر شاہکار تو نہیں مگر ایک شاندار کاوش ضرور ہے۔

 بعض احباب نے شکوہ کیا کہ زبان عام فہم نہیں ہے، اِس پر میں صرف اتنا ہی کہنا چاہوں گی ،کہ جب تک ہم بی فار بال کو گ سے گیند پڑھنے میں شرم محسوس کرتے رہیں گے ، ہماری مادری زبان یوں ہی اپنی کم مائیگی پر روتی رہے گی۔
بات تو سچ ہے      مگر بات ہے رسوائی کی 




9 comments:

  1. Very well written review!
    Loved the caption 😉😛

    ReplyDelete
  2. بہت خوب اور متوازن قسم کا جائزہ۔ کافی لوگوں کی یہی رائے ہے کہ شاہکار نہیں مگر ایک سنگ میل ضرور ہے۔
    زیادہ خوشی اردو فلم کے اردو میں ریویو کی ہوئی۔ بالکل صحیح کہا کہ جب تک بی فار بال کو گ سے گیند پڑھنے میں ہچکچاتے رہیں گے ہماری قومی زبان ایسے ہی اپنی کم مائیگی پہ روتی رہے گی۔

    ReplyDelete
  3. Awesome review. Loved how u summed it up <3

    ReplyDelete
  4. Writing such a well balanced piece is an art in itself. Thank you for such an honest review Minsa

    ReplyDelete
  5. loved your review,you have done a great job.

    ReplyDelete
  6. I need to watch this now! Proud of our industry for churning out decent stuff and I definitely appreciate the review in Urdu! :) x

    Jadirah Sarmad at Jasmine Catches Butterflies ʚϊɞ

    ReplyDelete
  7. Haven't watched it yet so not reading the review for any spoilers.

    Fatemah Sajwani | What Fatemah Says

    ReplyDelete
  8. I haven't watched it yet. But you have summed up the movie so well in an article. Great.

    ReplyDelete