لو جی اور سن لو ،غضب خدا کا ، موۓ ناہنجاز ، نا معقول، بے ہدایت، ارے اور کون "پنجاب گورنمنٹ ۔ لو بھلا اور کچھ نہیں تو لے دے کہ اسلام آباد میں ویلنٹائن ڈے پر پابندی لگا دی۔ بھلا بتاؤ کیا بگاڑاتھا اسلام آباد کے معصوم نوجوانوں نے؟ کیا ان کے سینوں میں دل نہیں ہے؟ گر دل ہے تو کیا اس میں جذبات نہیں ہیں؟ حانکہ سائنسی نقطہ نظر سے ایسا ممکن تو نہیں کہ بنا دل کہ آدمی بھلا چنگا دوڑتا پھرے ، ہاں مگر جس رفتار سے سائنس ترقی کر رہی ھے کچھ بعید نہیں کہ کچھ عرصے میں ایسا ہو بھی جائے۔ ہا ئے تازہ تازہ جوان ہوئے میری قوم کے سپوت۔ ان کے غم کا سوچتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
بھئی ویلنٹائن ڈے تو محبت کا دن ہے، اب وہ محبت نمبر 14 ہے یا 27 ، یہ ایک الگ بحث ہے۔ جبر کی حد تو ملاحظ فرمائیں کہ پھول دینے پر بھی پابندی لگا دی گئی ھے۔ آخر کیا قصور ہے ان غریب پھول بیچنے والوں کا جو فروری شروع ہوتے ھی پھولوں کے دام دگنے کر دیتے ھیں اور استفسار کرنے پہ دانت نکوستے ہوئے مہنگائی کا رونا رو دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سرف ایکسل سے دھلے اس ا نتہا ئی سفید جھوٹ کے بارے میں سارا باغ کیا پھول بھی بخوبی جانتا ھوتا ہے۔
کسی سیانے نے کیا خوب کہا ھے، محبت بانٹنے سے بڑھتی ھے۔ بھئی کوئی واہ واہ ہی سیانا تھا ایسی پتے کی بات کر کے خود غائب ھو گیا۔ سیانا جو تھا۔ آج اگر ہوتا تو جیل میں ڈال دیا جاتا۔ ساری فلاسفی دھری کی دھری رہ جاتی۔
اتفاق کی بات ہے کل( 13 فروری) ہمارے ایک عزیز بیمار پڑھ گئے، ہم نے سوچا کیوں نا ایک کارڈ لے جایا جائے تا کہ عیادت تحریری شکل میں بھی آ جائے ۔ بھئی کل کلاں موصوف مکر گئے اور کہہ دیا کہ حضرت آپ تو عیادت کو تشریف ہی نا لائے، تو کارڈ کی فوٹو کاپی دکھا دیں گے۔ گویا ایک تیر سے دو شکار۔
پس کارڈ لینے کے لئے ہم ایک دکان میں گھس گئے۔ جوں ہی کارڈ ریک سے ہم نے " بھیا جلدی ٹھیک ہو جا میرا مطلب ہے
کا کارڈ نکا لا، ریک کے پیچھے سے ایک سر برامد ہوا۔ "Get well soon.
ہمارا تو مانیے ترا ہی نکل گیا۔ بھئی سر کٹا تو سنا تھا یہ دھڑ کٹا کہاں سے آ گیا۔ اس سے پہلے کہ ہم سر پے پاوؑں رکھ کر بھاگ لیتے ریک کے پیچھے سے ایک عدد دھڑ بھی برامد ہو گیا۔ سر کو دھڑ سے جڑے دیکھ کے چندا سکون ہوا۔ ابھی ہم آفٹر شاکس کے اثر میں ہی تھے کہ ایک آواز سنائئ دی۔ بھائی ویلنٹائن والا کارڈ 50 روپے دا، تے باقی سارے20 ، 20 روپے دے۔ دل ہی دل میں فٹے منہ کہنے کہ بعد ہم نے اس غیر منصفانہ کاروباری پالیسی کی وجہ دریافت کرنے کا سوچا۔ کچھ کہتے کہتے یہ سوچ کہ چپ ہو رہے کہ اس ظالم سماج نے پہلے کب محبت کے ساتھ انصاف کیا ہے جو آج کرے گا۔
ہم سمجھ سکتے تھے کہ یہ غیر منصفانہ رویہ ہمارے نوجوانوں پر کس قدر منفی اثر مرتب کرے گا۔ ان کے معصوم ذہنوں پر کس قدر بوجھ پڑھ جائے گا۔ اجی ضمیر کا بوجھ ہوتا تو ہمیں اتنی فکر نا ہوتی۔ مگر دماغ پر بوجھ ۔ ۔ ۔ نا بابا نا۔ کہیں جو بوجھ کے زیرِ اثر عقل کام کرنے لگی تو؟ کہتے ہیں نا عقل نہیں تے موجا ں ہی موجاں۔ ۔ ۔ ہم کیسے اپنے نوجوانوں کو سوچوں میں ڈال دیں۔ بیچارے پہلے ہی بہت پریشان ہیں کہ اپنی محدود سی پاکٹ منی سے وہ کہاں تک پیغامِ محبت پہنچائیں ۔خیر ہمیں اپنی قوم کے سپوتوں پر پورا بھروسہ ہے۔ چاہےجتنی بھی پابندیاں لگا لو، پابندیاں چھوڑ جوتیاں لگا لو، یہ طوفانِ محبت نہیں رکنے والا۔ میرا پیغامِ محبت جہاں تک پہنچے۔
بہت سے لوگ ہوں گے جنہیں ان ہونہار جیالوں سے خدا واسطے کا بیر ہو گا۔ عین ممکن ہے وہ جلی کٹی بھی سنانی شروع ہو جائیں۔ نئی نسل کو نا خلف تک قرار دے دیں۔ مگر ہم یہی کہیں گے کہ تو کیا ہوا تم عیدیں سو کے ، جشنِ آزادی پھٹپھٹی کا سا ئلنسر نکال کے اور یومِ دفاع سڑکوں پر دفع ہو کر مناتے ہو، تم ان دانش مندوں کی باتوں پر کان نا دھرو،یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنی جوانی کتابوں میں گزار دی۔ انہیں کہاں کی عقل۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے کبھی کسی کو گلاب کا دور گوبھی کا پھول تک نہیں دیا۔ چھوٹے موٹے اداروں کے سر براہ کیا بن گئے، اپنے آپ کو نا جانے کیا سمجھنے لگے ہیں۔ تم بس اپنے مقصدِ حیات پر نظر رکھو۔ دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کیا سمجھے؟؟؟
آخر میں ہم گورنمنٹ سے ہوش کے ناخن لینے کی اپیل کریں گے۔ ایک معمولی سا سجھاؤ بھی ہے کہ اس عظیم دن پر عام تعطیل ہونی چاہیے۔ آخر ہم زندہ قوم ہیں ، ہم کیوں ترقی کی دوڑ میں اقوامِ مغرب سے پیچھے رہیں۔ اجی ہمارا تو کہنا ہے اس دن پورے شہر کو سرخ رنگ سے سجا دینا چاہیے ؛ بس ایک بات کا خیال رکھا جائے، ایسا کرنے سے پہلے شہر کے سارے مشتنڈے سنڈے شہر سے نکال دئیے جائیں۔ ہم نہیں چا ہتے ھمارے مستقبل پر خطرے کے بادل منڈلائیں، بھئی یہ قابل نوجوان ہمارا مستقبل ہی تو ہیں۔ کیا خیال ہے آپکا؟
Well written!
ReplyDeleteThanks :)
DeleteWell written!
ReplyDeleteVery well written piece
ReplyDeleteThank you :)
DeleteVery well written piece
ReplyDelete