Monday, 31 October 2016

Ae Dil Hai Mushkil Review & Link to Watch Online

"اے دِل ہے مشکل"  میری نظر میں 
\
حال ہی میں محترم کرن جوہر نے ہزاروں پاپڑ بیل کر ایک عدد فلم نبامِ "اے دِل ہے مشکل" ریلیز کی ہے۔ کرن جوہر نام تو سنا ہو گا۔ رکھنے والے نے کیا نام رکھا ہے " اے دِل ہے مشکل"، بھئی واہ ۔ داد تو بنتی ہے۔ پیشن گوئی  تھی کہ یہ اس سال کی بہترین فلم ہوگی۔ پاکستانی اداکاروں کی موجودگی سے جہاں کئی سینوں پر سانپ لوٹ گئے وہاں لوگوں کا تجسس بھی آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ ایک بات تو طے ہے کہ جب فلم بینوں نے سنیما کا ٹکٹ خرچ کر فلم دیکھی ہو گی تو یقینً دِل میں ابھرنے والی فلم ساز کو سبق سکھانے کی تمنا پر کہا ہوگا "اے دِل ہے مشکل"۔
کہانی شروع ہوتی ہے رنبیر کپور (جو کہ ایک مشہور سِنگرہے) کے انٹرویوسے ۔ دورانِ انٹرویو محبت کے بارے میں  پوچھا گیا ایک سوال اسے ماضی کی پرفریب وادیوں میں لے جاتا ہے۔ ایک عدد پارٹی چل رہی ہوتی ہے جہاں دو مادر پدر آزاد لوگ "رنبیر اور انوشکا" تھرک رہے ہیں ۔ جو ہی انکی نظریں ملتی ہیں ۔۔۔۔ بس نا سلام نا دعا ہو گئے شروع (عمران ہاشمی کی اولاد)۔ دورانِ نازیبا حرکات انھیں یاد آتا ہے کہ تعارف تو ہوا ہی نہیں۔ گویا نا جان نا پہچان، تو میرا مہمان۔
تعارف ہوتا ہے اور دونوں کو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ایک ہی تھالی لے چٹے بٹے ہیں۔ نتیجہ دوستی کی صورت میں نکلتا
 ہے۔ اگلے کچھ دن وہ مختلف کلبز میں ناچتے پھرتے ہیں۔ کام کے نا کاج کے دشمن شراب کے۔ انوشکا بتاتی ہے کہ عمران عباس اس کا موجودہ خاص ام خاص دوست ہے جسے وہ اپنا تازم تازہ بریک اپ بھلانے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ خیر سے موصوف ڈاکٹر ہے۔ 

اب رنبیر بھی کوئی دودھ کا دھلا نہیں ہوتا۔ وہ بھی اپنی روحانی والدہ (گرل فرینڈ) کا تذکرہ کرتا ہے جو گاندھی جی کی طرح لباس سے بدکتی ہے (سنسکاری ناری) ۔ ایک فضول شرط کی وجہ سے طے پاتا ہے کہ دونوں اپنے دوستوں کو ملوائیں گے اور تقابلی جائزہ لیں گے کہ کون کتنا فارغ ہے۔ 

    عمران عباس کی کنفیوز پرسنیلیٹی پر یہ گمان گزرتا ہے گویا جانوروں کا ڈاکٹر ہو وہ بھی نقلی ڈگری والا۔ اسی طرح رنبیر کی سہیلی بھی دو نمبر انگریز لگتی ہے۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ دو ریلوکٹے لینے کا مقصد ہی یہ تھا کہ عوام کو لگے رنبیر اور انوشکا ہی ایک دوسرے کے لئے بہتر ہیں۔ خیر اگلی ملاقات میں کچھ ناچ گانے کے بعد دونوں ریلوکٹے رنبیر اور انوشکا کو کٹ کروا کر اپنی ٹیم بنا لیتے ہیں۔ 
اب رنبیر اور انوشکا کو کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔ دونوں پیرس جانے کا منفرد منصوبہ بناتے ہیں (واؤ، ایسا پہلے کبھی کسی فلم میں نہیں ہوا۔۔۔ سچی) ۔ پیرس میں دورانِ آوارہ گردی انوشکا کا ٹاکرہ فواد خان سے ہو جاتا ہے۔ فواد خان وہی موصوف ہیں جن کے ساتھ ہوا بریک اپ انوشکا کو بھلائے نہیں بھول رہا۔ وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر بیچارے رنبیرکو ٹھڈا کروا کے فواد کے ساتھ ہو لیتی ہے۔ 

اب رنبیر کو احساس ہوتا ہے کہ وہ تو انوشکا کے پیار میں گوڈے گوڈے ڈوبا پڑا ہے۔ چند دن جیسے تیسے گزرتے ہیں تو انوشکا کا فون آتا ہے اور وہ اسے اپنی شادی میں آنے کی دعوت دیتی ہے (امیر کبیر دوستوں کو کون نہیں بلاتا ، جناب تگڑی سلامی کا سوال ہے)۔ شادی کے سارے مناظر میں کوئی اور ہی غائب دماغ سا رنبیر ہے ۔ عجیب سی حرکتیں کرتا ہوا اور ہاتھوں میں مہندی لگانے سے پوری طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ محبت کا بخار دماغ کو چڑھ گیا ہے ۔ وہی بات ہوتی ہے "میں خوش ہوں میرے آنسوؤں پہ نا جانا"۔ ادھر بارات آ رہی ہوتی ہے ادھر رنبیر سب چھوڑ چھاڑ واپس آ جاتا ہے۔ 
اب کہانی میں کمال کا ٹویسٹ آتا ہے۔ ایئر پورٹ پر رنبیر کی ملاقات ایشوریا رائے بچن سے ہوتی ہے۔ مس ورلڈ کو دیکھ کر اسکے سوئے ارمان ویک اپ ہو جاتے ہیں اور وہ ایشوریا پر ایمیجیٹ ڈورے ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ ہر حربا آزماتا ہے ، حاتکہ آنسو بھی، درد بھری کہانی بھی یعنی محبت کی ماں کی آنکھ۔ 

 ایشوریا ایک اعلی پائے کی فلاپ شاعرہ ہوتی ہے ، اپنے منہ سے بتاتی ہے کہ شاعروں کی دنیا میں اسکا کوئی خاص نام نہیں ہے (صاف گوئی) ۔ بہرحال انتہائی تھرڈلی میسج مارکہ شاعری، بے تکے مقالمے اور بے سروپا اردو بولتی ایشوریا رائے انتہائی نا معقول لگی ہے۔ مصنوئی بے تاثر چہرے پر میک اپ کی ایک دبیز تہہ ہونے کی وجہ سے (معذرت کے ساتھ) کسی بوڑھی چڑیل کا گمان ہوتا ہے۔ پے در پے سرجریوں نے چہرے کی ساری ملاہمت ہی اڑا دی ہو گویا۔

  بہرحال جاتے جاتے وہ رنبیر کو اپنا نمبر اور کتاب دے جاتی ہے (اور تو کوئی خریدتا نہیں، اسی بہانے ہی سہی کوئی تو پڑھے گا)۔ لو جی اب رنبیر اور ایشوریا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں ایک بے حد فضول بات یہ ہے کہ ایشوریا کا پرانا شوہر نکل کے آتا ہے جو ہے ون ایند اونلی "شاہ رخ خان"۔ شاہ رخ خان نے اگرچہ ایک ہی سین کیا ہے مگر کسی نے سچ کہا ہے مایوس کرنے کے لیے ایک لمحہ ہی کافی ہے۔ شاہ رخ خان نے باخوبی ، باکمال اوور ایکتٹنگ کرتے ہوئے اردو کی ہڈی پسلی ایک کر دی ہے۔ 

کہانی رنبیر اور انوشکا پر واپس آتی ہے۔  انوشکا رابطہ کر کے بتاتی ہے کہ وہ شہر میں ہے اور ملاقات کا وقت طے پا جاتا ہے۔ رنبیر اور ایشوریا انوشکا کے میزبان ہیں اور ایشوریا بھانپ جاتی ہے کہ وہ جو بھی کر لے انوشکا آوے ہی آوے۔ اب رنبیرضد کرتا ہے کہ انوشکا اپنے شوہر کو بھاڑ میں ڈالے اور اس کے ساتھ محبت محبت کھیلے۔ انکار کرنے پر وہ اسکو بے عزت کر کے بھگا دیتا ہے (بات نہیں مانی نا ۔۔۔۔۔ تبھی) 

ادھر ایشوریا کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اب اسکی فلم میں کوئی ضرورت نہیں بچی سو وہ اردو کی دوسری ٹانگ بھی توڑتے ہوئے رنبیر سے الگ ہو جاتی ہے مگر ہاں اسکے لئے گانے لکھنے سے باز نہیں آتی (وصی شاہ کی رشتہ دار نا ہو تو)۔

   خیر دو سال گزر جاتے ہیں اور ایک دن رنبیر کی ملاقات فواد خان سے ہوتی ہے۔ پوچھنے پر پتہ لگتا ہے کہ انوشکا دو سال پہلے ہی فواد کو فارغ کر چکی ہے۔ اسی لمحے رنبیرکے موکل اسے اطلاع دیتے ہیں کہ انوشکا ایک  فضول سی جگہ جہاں پیار ٹیڑھا ہے (لائیٹ بورڈ ) پر پائی جائے گی۔ ویسے کوئی عقل کا اندھا بھی بتا سکتا ہے کہ لائیٹ بورڈ پر پیار(لوو) ٹیڑھا نہیں الٹا لکھا تھا (نالائقوں کے بیسک کونسیپٹ ہی خراب ہیں)۔ رنبیر اس جگہ جا کر ڈیرا جما لیتا ہے۔ کوئی دو دن بعد انوشکا آتی ہے۔ لو جی نیا ٹویسٹ۔ (آگین ویری ینیق) انوشکا کو کینسر ہو چکا ہے اور اس مرض نے نا صرف اسکے بال بلکہ فیشن سنس بھی چھین لیا ہے۔ بے حد شوخ رنگوں کے چیختے چنگھاڑتے کپڑوں اور جیولری میں گنجی انوشکا انتہائی بونگی لگ رہی ہے۔ یقین جانئیے آپکو ہمدردی ہونے کی جگہ ہنسی آ جائے گی۔ بس اس کے بعد رنبیردوستی نبھاتا ہے اور کچھ عرصے بعد انوشکا مر جاتی ہے۔ فلم ختم 

ایسا معلوم ہوتا ہے کرن جوہر کر پاس اب نیا کچھ نہیں بچا ہے۔ وہی پرانی فلموں کے حوالے اور رشتون کی بناوٹ میں ذبردستی کی پیداکی گئی پیچیدگیوں پر مبنی کہانیاں۔ اس فلم میں اگر کچھ اچھا ہے تو وہ ہے اسکی موسیقی اور دوستی کا رشتہ۔ ایکٹنگ کے نام پر چند خوبصورت سین ہیں تو مگر مجموعی طور پر اوور ایکٹنگ کا بھنڈار ہے۔ بہرحال اگر کچھ دیکھنے کو نا ملے تو"اے دِل ہے مشکل"  ایک بار دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں      
   

3 comments: